نظامِ تعلیم


.

علم کی قدیم و جدید مغربی یا مشرقی میں تقسیم درست نہیں۔ ہماری تو شروعات ہی اقراء سے ہوتی ہے، یعنی پڑھو ہر مخلوق کو،انفس و آفاق ہو، بحر و بر ہو، ذرہ ہو یا خلیہ یا تاحدنگاہ پھیلی پراسرار کائنات ،جمادات ہوکہ نباتات،کھوجو اس علم کو جو قلم کے راستے سے ہو، جسے قرآن نے یعلم کہہ کر پکارا ہے۔
نظام تعلیم کی حدود یہاں تک محدود نہ ہو کہ صرف فنون جمیلہ و لطیفہ،فن تعمیر، کاغذ کے چند حروف یا قدیم نقش و نگار کے ورثہ Heritage سے ملت کو آشنائی دے، بلکہ نئی نسل تک اس علمی ورثے کو منتقل کرے، جس پر اسلاف کی قوت اور طویل مدت صرف ہوئی ہو جو وحی الٰہی تک جاتا ہو۔
نظریہ ideas ، افادیتvalues، عقائد اور حقائق کا جدید نسل کو ترجمان اور محافظ بنائے، جو ان کے لئے کوئی خارجی عنصر نہ رہے بلکہ وہ ان کا مزاج بنے جو ان میں رچ بس جائے۔